ابھی نصف صدی قبل جبکہ پوری
دنیا میں برطانوی شہنشاہیت کا ڈنکا بج رہا تھا اس وقت
برطانوی بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ ہماری حدود سلطنت میں کبھی
سورج غروب نہیں ہوتا (گوآج اس کا یہ حال ہو کہ وہاں کبھی سورج
دکھائی نہ دیتا ہو)۔ اس وقت ایک مسلمان یورپ و امریکہ
سے اس قدر خائف و مرعوب تھا کہ وہ سوچ تک نہیں سکتا تھا کہ وہ ان حکمراں
اقوام کی سرزمین پر اپنی بستیاں بسائے گا اور ان کو اپنے
مذہب کی طرف دعوت دے گا۔مسلمان ایک طرف ان کی سائنسی
ترقی سے مرعوب تھے تو دوسری طرف ان کی سامراجیت سے دم
بخود۔ لیکن آخر کار برطانوی شہنشاہیت کا طلسم ٹوٹا اور
سارے مسلم آبادی والے ممالک ایک ایک کر کے آزاد ہوتے گئے۔
دوسری عالم جنگ کے نتیجے میں ایشیا و افریقہ
پرفرانس اور دیگر یورپی اقوام کی گرفت بھی ڈھیلی
ہوئی اور سارے غلام ممالک آزادی کی نعمت سے ہمکنار ہوتے
گئے۔ گو ایک طرف سوویت یونین کا عفریت وسط ایشیا
پر اپنا آہنی پنجہ گاڑے رہا لیکن عالم اسلام کے اکثر حصوں میں ایک
طویل نیند اور قیامت کی بے ہوشی کے بعدبیداری
اور ترقی کی لہر پیدا ہوگئی تھی۔ مسلمان اعلی
عصری تعلیم کی طرف مائل ہونے لگے تھے اور استعماریت کی
تخریب کاریوں کی تلافی میں سرگرم ہو چلے تھے۔کچھ
تو استعماریت کا شاخسانہ تھا کہ اعلی تعلیم یافتہ سے لے
کر مزدور مسلمان یورپ و امریکہ کی طرف ہجرت کر رہے تھے اور کچھ
تعلیم وغیرہ کے لیے نقل مکانی کر رہے تھے۔
یہ رجحان بیسویں
صدی کے نصف اخیر میں کافی شدت اختیار کر گیا۔
جس کی وجہ سے دیکھتے دیکھتے یورپ و امریکہ میں
مسلمانوں کی تعداد بڑھنے لگی۔نیز عالم اسلام میں پیدا
ہونے والی بیداری کی وجہ سے مسلمانوں میں دینی
دعوت کا مزاج اور علیحدہ شناخت کا تصور عام ہوتا گیا۔اس سے بھی
مسلمانوں کو یورپ امریکہ کی سرزمین پر بہت سے ہمنوا ملتے
گئے جن سے ان کی عددی طاقت میں اضافہ ہوتا گیا۔ آج
صورت حال یہ ہے کہ امریکہ میں اسی لاکھ، فرانس میں
ساٹھ لاکھ ، برطانیہ میں بیس لاکھ ، اس کے علاوہ کناڈا، جرمنی
اوریورپ کے دیگر ملکوں میں مسلمانوں کی اچھی خاصی
تعدادموجود ہے۔گذشتہ چند دہائیوں کے اندر ہی یورپ کے قلب
میں البانیہ، بوسنیا ہرزیگوونیا جیسی
مسلم ریاستیں اور مقدونیہ و بلغاریہ جیسی کثیر
مسلم آبادی والی ریاستیں وجود میں آچکی ہیں۔چناں
چہ یورپ و امریکہ جہاں ہمیشہ سے عیسائی و یہودی
کلچر موجود تھا اب وہاں اسلام ایسی صورت حال اختیار کر گیا
ہے کہ اسے کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
۱۱/ستمبر کو امریکہ پر حملوں کا ایک
مثبت پہلو یہ رہا کہ مسلمان ایک بار پھر موضوع بحث بن گئے۔
پنٹاگن اور ڈبلیو ٹی سی پر حملہ آوروں کا مذہب ،تہذیب
اوران کی تعلیم پوری دنیا خصوصاََ امریکہ و یورپ
کی عوام کی توجہ و دل چسپی کا محور بن گئی۔تاریخ
میں پہلی باربھاری تعداد میں قرآن کریم کے نسخے امریکی
و یورپی مارکٹوں میں کثرت سے بکے اور ختم ہوگئے۔یونیورسٹیوں
میں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق پی ایچ ڈی کرنے والوں کا
تانتا لگ گیااور یورپ وامریکہ کے سیکڑوں اداروں نے اسلامک
اسٹڈیز کے شعبے قائم کیے۔اسلام یورپ وامریکہ میں
پہلے ہی سے پنپ رہا تھا ، ان حالات نے اسے کسی قدر مناسب آب و ہوا
پہنچادی کہ اس کے پھلنے پھولنے کے ذرائع خود پیدا ہوگئے۔اس لیے
آج یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ مغرب میں اسلام سب سے زیادہ
مقبول اور تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن گیا ہے۔گو
مسلمانوں میں اکثر تعداد ان کی ہے جو آبائی طور پر مسلمان ہیں
اور مستقل وہیں سکونت اختیارکرلی ہے لیکن ان میں
امریکی و یورپی مسلمانوں کی بھی اچھی
خاصی تعداد شامل ہے۔
مشرق سے مغرب کے خوف کی
تاریخ کافی پرانی اور عیسائیت واسلام کی چشمک
کی جڑیں خاصی گہری ہیں۔عہد فاروقی ہی
میں مسلمانوں نے عیسائیت و یہودیت کے سب سے بڑے
مرکز یروشلم و شام وغیرہ کو فتح کر لیاتھا۔دوسری صدی
ہجری میں مسلمان یورپ کے آخری مغربی سرے پر اندلس میں
اسلامی حکومت کا علم لہرا چکے تھے جس میں آج کاپورا اسپین اور
پرتگال و فرانس کا بڑا حصہ شامل تھا۔وہ تو فرانس کے کچھ جیالوں نے
مسلمان فوجوں کا راستہ روک دیا تھا ورنہ نہ جانے یہ طوفان کب کا پورے یورپ
کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہوتا۔بعد میں سلطان محمد
فاتح نے قسطنطنیہ فتح کیا جو کہ
روم کے بعد دنیا کا سب سے بڑا عیسائی مرکز تھا۔اور صلیبی
جنگوں کا حال تو سب کو معلوم ہے جب اسلام و عیسائیت کی طویل
ترین جنگ میں ایوبی حکمت و فراست نے عیسائیوں
کو دھول چاٹنے پر مجبور کردیا۔اسلام اور عیسائیت کے درمیان
اس طویل کشمکش نے تاریخی حیثیت اختیار کرلی۔
صلیبی جنگوں کے گہرے زخم آج بھی اہل یورپ کے دل و دماغ میں
اس قدر تازہ ہیں کہ عیسائی والدین، اساتذہ، میڈیا
اور سیاست داں اسے اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے تئیں
اپنے جذبات کو اپنی نئی نسل تک بحفاظت پہنچائیں۔
صلیبیوں نے
گوفوجی و دفاعی میدان میں اپنی شکست تسلیم کر
لی لیکن ثقافتی و تہذیبی جنگ انھوں نے جاری
رکھی۔ عداوت و نفرت کی اس آگ کو نام نہاد محققین اور
مستشرقین نے خوب ایندھن فراہم کیا اور مزعومہ تحقیق (Research) کے پس پردہ اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے
اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں کوئی کسر نہیں
چھوڑی۔اٹھارہویں صدی میں یورپ کے اندر برپا
ہونے والے اقتصادی انقلاب نے انھیں مزید وسائل سے مالامال کردیا
جس سے مغربی حکومتوں نے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا۔ ذرائع ابلاغ کی
ترقی کے بعد اس مشن میں کافی تیزی آگئی۔
اسی دوران ایک اہم واقعہ یہ رونما ہوا کہ برطانیہ نے فلسطین
میں جو کہ اس کی نوآبادیات تھا ایک ناجائز اسرائیلی
ریاست قائم کردی اور یہودیت و عیسائیت کی
روایتی و تاریخی کشمکش کو مسلمانوں کی طرف پھیردیا۔یہودیوں
کو، جنھیں تاریخ میں ہمیشہ مسلمانوں کے ہی دامن عافیت
میں امن و سکون کی زندگی نصیب ہوئی ،بڑے شد و مد کے
ساتھ یہ باور کرادیا گیا کہ مسلمان ہی ان کے سب سے بڑے
دشمن ہیں۔
عالم عیسائیت
اگر چہ فوجی محاذ پر اسلام کو نہ مٹا سکا لیکن اس کا اندازہ تھا کہ وہ
اپنے جھوٹے پروپیگنڈوں ، تہذیبی یلغار اور ثقافتی
جنگ میں مسلمانوں پر ضرور غالب آئے گا۔لیکن آج صورت حال یہ
ہے کہ اسلام ہر محاذ اور ہر میدان میں عیسائیت کے مد
مقابل کھڑا ہوا ہے۔سوویت یونین کے تار و پود بکھرجانے کے
بعد اگر کوئی سیاسی ، اقتصادی، سماجی اور اخلاقی
نظام ہے جو عیسائیت اور مغربیت کو چیلنج کر سکے تو وہ صرف
اور صرف اسلام ہے۔آج اسلام، مسلمانوں خصوصاََ عربوں کے خلاف نفرت و عداوت کا
جو بازار گرم ہے وہ اسی Islamophobia (اسلام سے خوف کی بیماری) کا ایک
حصہ ہے۔ اگر آج مغربی دنیا اسلام سے خائف ہے تو اس کا یہ
خوف بے بنیاد نہیں۔ اگر وہ طالبان کی کمزور حکومت سے خائف
تھی تو محض اس لیے کہ وہ ایک مضبوط تر سیاسی نظام
کے قائل تھے۔اگر آج سوڈان پرپابندیاں عائد ہیں تو محض اس لیے
کہ وہ ایک علیحدہ معاشی نظام کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔
اگر آج عالم عرب ، ایران، اور برصغیر ہندکی دینی
تعلیم گاہیں اور ادارے مغربی ملکوں کو ایک آنکھ بھی
نہیں بھاتے تو اس کے علاوہ اس کی اور کیا وجہ ہے کہ یہ ایک
صالح اور تعمیری سماجی و اخلاقی نظام کے نقیب ہیں۔
وہ دیکھ رہے ہیں
کہ آج مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب ہے ۔ روئے زمین کی
مجموعی آبادی کا چوتھا حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔یہ دنیا
کے ایک بڑے رقبے پر آباد ہیں۔ ۵۴ ملین مربع میل کا ایک
چوتھائی حصہ ان کے قبضے میں ہے اور روئے زمین کے سرسبزوشاداب
خطے ان کی سکونت میں ہیں جنھیں تقریباََ تمام قدیم
تہذیبوں کا مرکز و محور ہونے کا شرف حاصل ہے۔عالم اسلام زمین کے
ایک اہم اوروسیع رقبے پر مشتمل ہے ۔ جنوبی خط استوا سے پھیلتے
ہوئے وسط ایشیا میں۵۵ خط عرض سے بھی زائد حصے اس کی
قدرت و تصرف میں ہیں۔مختلف آب و ہوا کے تین منطقے
مسلمانوں سے آباد ہیں۔منطقہٴ حارہ کا منتشر حصہ، منطقہٴ
صحراویہ اور منطقہٴ متوسطہ ان کی تگ وتاز اور بود وباش کا
مرکزہے۔اسی لیے عالم اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ
اس خطے میں متنوع نباتات پائی جاتی ہیں اور زراعتی
پیداوار کی نوع بنوع اقسام یہاں موجود ہیں۔فوجی
میدان میں اسلحہ کی طاقت کے اعتبار سے عالم اسلام گو بہت پیچھے
ہے لیکن افراد و وسائل کے لحاظ سے اس کا کوئی ثانی نہیں
ہے۔فوجی وسائل میں پہلے نمبر پر پٹرول ہے جس کی پیداوار
کا تناسب عالمی پیداوار کے مقابلہ میں ۶۰٪ ہے اور زیر زمین ذخائر (Oil-reserves) عالمی ذخائر کے مقابلے میں ۸۰ ٪ سے بھی زیادہ ہیں۔
عالمی پیداوار کے مقابلہ میں عالم اسلام میں۱۵ ٪ لوہا ، ۲۵ ٪ تانبہ، ۴۰٪ کروم کی معدنیات، ۵۶٪ رانگا، ۲۳٪المونیم، ۱۰ ٪ سیسہ، ۲۵ ٪ فاسفیٹ اور دوسری
بہت سی معدنیات پائی جاتی ہیں۔اس کے علاوہ
اہم ترین آبی گذرگاہیں جو تجارت و دفاع وغیرہ میں
نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں وہ سب عالم اسلام میں واقع
ہیں۔بحر ابیض متوسط تین بر اعظموں کے درمیان رابطہ
کا ذریعہ ہے۔ جبل الطارق کا درہ بحر اٹلانٹک اور بحر متوسط کے درمیان
واقع ہے۔ نہر سویز بحر احمر کو بحر متوسط سے ملاتی ہے۔باب
المندب کا درہ جو بحر احمر اور خلیج عدن کے درمیان وصل کاکام دیتا
ہے۔ملاکا کا درہ جو جزیرہ سوماترا کو جزیرہ نما ملایا سے
الگ کرتا ہے ۔ یہ سب تجارتی اور فوجی و حربی جگہیں
ہیں جنھوں نے قدیم و جدید تاریخ کے ہر دور میں
تجارتی راستوں اور فوجی حملوں کے نقطئہ نظر سے فیصلہ کن کردار
ادا کیا ہے۔اس کے علاوہ عالم اسلام میں ترکی و الجزائر سے
لے کر افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک تک جنگجو، طاقت آزما اور
بہادر افراد کی کمی نہیں ہے۔
مغربی دنیا
اب تک مختلف ذرائع سے سیاسی، سماجی ، فوجی اور اقتصادی
سطح پر مسلمانوں پر حاوی رہی ہے۔ لیکن ایک طرف
مسلمانوں میں بیداری پیدا ہونے کے بعد انھیں یہ
خوف لاحق ہوگیا ہے کہ اگر عالم اسلام کو کچھ لائق اور ژرف نگاہ قائد میسر
آگئے اور انھوں نے اپنی بکھری قوتوں کا استعمال کر نا سیکھ لیا
تو وہ دن دور نہیں جب کہ مغرب کی قیادت کا طلسم چکناچور ہوکر
بکھر جائے گا اور عالم اسلام قیادت و جہاں بانی کی نئی
بلندیاں طے کرتا ہوا نظر آئے گا۔دوسری طرف اہل مغرب کو خود اپنے
ملکوں میں پیر تلے زمین کھسکتی نظر آرہی ہے، مسلمان
پورے اسلامی تشخص اور تہذیبی شناخت کے ساتھ ہر میدان میں
پورے یورپ و امریکہ میں اپنا وجود تسلیم کرا رہے ہیں۔
ان اسباب کے پیش نظر اگر یورپ میں’اسلام سے خوف ‘ (Islamophobia) کی لہر
دوڑ گئی ہے تو یہ بے بنیاد نہیں۔
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ3، جلد: 91 ، صفر 1428 ہجری مطابق مارچ2007ء